سلام دینِ فطرت ہے، جو زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بعض لوگ آج بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صفرُالمظفر (صفر کا مہینہ) منحوس ہے اور اس مہینے میں شادی، کاروبار یا کوئی نیا کام کرنے سے نقصان ہوتا ہے۔ یہ نظریہ دراصل زمانۂ جاہلیت کی ایک رسم ہے جسے اسلام نے ختم کر دیا۔ اس مضمون میں صفر کے مہینے میں شادی پر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ صفر کے مہینے میں شادی کرنا کیسا ہے، اور ایک صحابی کی صفر میں شادی کا واقعہ بھی ذکر کریں گے تاکہ معاملہ مزید واضح ہو سکے۔

صفرُالمظفر کا مہینہ اور جاہلیت کے عقائد
زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ مختلف مہینوں اور دنوں کو منحوس سمجھتے تھے۔ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کچھ ایام میں شادی کرنے سے رشتے کامیاب نہیں ہوتے یا مشکلات پیش آتی ہیں۔ خاص طور پر صفر کا مہینہ ان کے نزدیک نحوست والا تصور کیا جاتا تھا۔ اس عقیدے کے تحت وہ شادی، صفر اور نئے کاروبار سے گریز کرتے تھے۔
اسلام نے آ کر ان باطل عقائد کو ختم کیا اور واضح کر دیا کہ نہ کوئی مہینہ برا ہے اور نہ کوئی دن منحوس۔ اصل برائی گناہوں میں ہے، نہ کہ وقت یا دنوں میں
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات
رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے اس غلط نظریے کو ختم کرتے ہوئے فرمایا:
“لا عَدویٰ ولا طِیَرَةَ ولا ہامَةَ ولا صَفَرَ”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
ترجمہ: “نہ کوئی بیماری خود بخود لگتی ہے، نہ بدشگونی ہے، نہ کوئی دن یا مہینہ منحوس ہے۔”
یہ حدیث اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سفر کا مہینہ یا کوئی بھی وقت بدقسمتی نہیں لاتا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“شگون لینا شرک ہے” (ابو داؤد)
یعنی کسی دن یا وقت کو منحوس سمجھنا شرک کے دروازے کھولتا ہے۔
صفرُالمظفر قرآن کی روشنی میں
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
“إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ”
(التوبہ: 36)
ترجمہ: “بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اللہ کی کتاب میں اسی دن سے جب زمین و آسمان کو پیدا کیا۔”
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ تمام مہینے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور ان میں سے کسی کو منحوس قرار دینا درست نہیں۔
اسلام کا موقف
اسلام کے عقائد کے مطابق:
- صفر کے مہینے میں شادی کرنا بالکل جائز اور درست ہے۔
- کسی بھی مہینے کو منحوس سمجھنا جاہلانہ سوچ ہے۔
- اصل نحوست انسان کے گناہوں اور برے اعمال میں ہے، وقت میں نہیں۔
- شادی سنتِ نبوی ﷺ ہے اور اسے کسی بھی وقت کرنے سے برکت ملتی ہے۔
صحابہ کرام کی زندگیاں اور شادی
اگر صفر کا مہینہ واقعی منحوس ہوتا تو صحابہ کرام کبھی اس مہینے میں شادی نہ کرتے۔ لیکن تاریخ کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے ہر مہینے میں شادی کی، اور اس کو نحوست کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شادی کا واقعہ
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شادی سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔ یہ نکاح ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں عمل میں آیا۔ مؤرخین کے مطابق یہ نکاح ذوالحجہ یا محرم کے بعد ہوا، اور اس وقت معاشرے میں بھی یہ غلط فہمیاں موجود تھیں کہ فلاں وقت شادی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی بیٹی کی شادی اس وقت میں کروائی، اور اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اسلام میں شادی کے لیے کوئی وقت یا مہینہ منحوس نہیں۔
اسی طرح دیگر صحابہ کرام نے بھی مختلف مہینوں میں شادیاں کیں، اور کہیں بھی یہ روایت نہیں ملتی کہ انہوں نے کسی مہینے کو نحوست کی وجہ سے چھوڑ دیا ہو۔
موجودہ دور کے غلط عقائد
آج بھی ہمارے معاشرے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ:
- صفر کے مہینے میں شادی کرنے سے رشتہ کامیاب نہیں ہوتا۔
- اس مہینے میں شادی کرنے والوں کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
- بعض خاندان اس مہینے کو شادی کے لیے بالکل ممنوع سمجھتے ہیں۔
یہ تمام نظریات جاہلانہ ہیں اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
شادی کے بارے میں شریعت کا اصول
اسلام میں شادی کے لیے کوئی مہینہ، دن یا وقت منحوس نہیں ہے۔ اصل اصول یہ ہے کہ:
- لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ہو۔
- نکاح شرعی طریقے سے کیا جائے۔
- گواہ موجود ہوں۔
- حقِ مہر مقرر کیا جائے۔
read moreجب یہ اصول پورے ہو جائیں تو شادی ہر وقت باعثِ خیر و برکت ہے۔
read moreنتیجہ
صفر کا مہینہ اور خصوصاً سفرُالمظفر میں شادی کرنا بالکل درست اور جائز ہے۔ اسلام نے نحوست کے تمام عقائد کو باطل قرار دیا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ کوئی مہینہ برا یا منحوس نہیں۔
صحابہ کرام کی زندگیاں بھی اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے کبھی مہینوں کی نحوست کو بنیاد نہیں بنایا۔ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک شادی سنتِ رسول ﷺ ہے اور اسے کسی بھی وقت کرنا باعثِ برکت ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم جاہلانہ عقائد کو چھوڑ کر قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کریں، اور شادی جیسے مقدس رشتے کو کسی وہم یا بدشگونی کی نذر نہ کریں۔